پیر، 6 جنوری، 2025

(چوری کا مال خریدنا کیسا ہے؟)

 السلام علیکم و رحمة اللّٰه وبرکاته 
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ چوری کا مال خریدنا  کیسا ہے؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
المستفتی : فیضان خان ایم پی

وعلیکم السلام ورحمة اللّٰه وبرکاته
 بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصوب

”چوری کے مال کی خریداری سے متعلق تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ خریدار کو حتمی طور پر معلوم ہو کہ یہ مال مسروق (چرایا ہوا) ہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا مال مسروق ہونا حتمی (یقینی) طور پر معلوم نہ ہو بلکہ غالب گمان ہو کہ یہ مال مسروق ہے تو ان دونوں صورتوں میں اس مال کو خریدنا ناجائز ہے، اور تیسری صورت یہ ہے کہ نہ تو اس کا مال مسروق ہونا یقینی ہے اور نہ ہی غالب گمان ہے تو اس مال کا خریدنا جائز ہے، اور اگر خریداری کے بعد معلوم ہوجائے کہ یہ مال مسروق ہے تو اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کے مالک کو یا اس کے وارثین کو واپس کردے اور یہ نہ ہوں تو فقیروں پر تصدق کردے۔
         حضرت شیخ نظام الدین المتوفی ١١٦١ھ علیہ الرحمہ اور علماء ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے:”وان كان الغالب هو الحرام أو كان البائع رجلا يبيع الحلال والحرام يحتاط ويسأل أنه حلال أم حرام اھ....
ترجمہ: اور اگر غالب گمان ہو کہ وہ مال حرام ہے یا بائع ایسا شخص ہے جو حلال وحرام دونوں کی بیع کرتا ہے تو احتیاط یہ ہے کہ پوچھ لے کہ وہ مال حلال ہے یا حرام۔ (الفتاوی الهندية، كتاب البيوع، الباب العشرون في البياعات المكروهة، جلد ۳، صفحہ ٢١٠، مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)
        محمد امین بن عمر عابدین الشامی المتوفی ١٢٥٢ھ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے:”وكذا لا يحل إذا علم عين الغصب مثلاً وإن لم يعلم مالكه لما في البزازية : أخذ مورثه رشوة أو ظلماً، إن علم ذلك بعينه لا يحل له أخذه، وإلا فله أخذه حكماً اھ...
ترجمہ: اور اسی طرح حلال نہیں ہے جبکہ عین مغصوبہ معلوم ہو اگرچہ اس کا مالک معلوم نہ ہو اس وجہ سے جو بزازیہ میں ہے کہ: مورث نے رشوت یا ظلما لیا، اگر بعینہ معلوم ہو تو اس کا لینا حلال نہیں ہے، ورنہ پس اس کے لئے حکماً اس کا لینا جائز ہے۔
"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه"اھ.....
اور خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس مال کے مالک معروف ہوں تو انہیں واپس دیا جائے اور پس اگر عین حرام شئ معلوم ہوجائے تب بھی وہ اس کے لئے حلال نہیں ہے اور وہ اسے اس کے مالک کی طرف سے نیت کرکے صدقہ کردے۔(در مختار مع رد المحتار، کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالا حراما، جلد ٧، صفحہ ٣٠۱، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
       اور اسی میں فرمایا ہے:”قوله (ولا للمشتری منه) فیکون بشرائه منه مسیئا لأنه ملکه بکسب خبیث، و في شرائه تقریر للخبیث ویؤمر بما کان یؤمر به البائع الخ
ترجمہ : اور نہ مشتری کے لئے حلال ہے تو مشتری اس خریداری سے گنہگار ہوگا کیونکہ وہ اس کی ملک خبیث ہے، اور اس کے خریدنے میں خبیث کا معین ہوگا اور اس کے لئے بھی وہی حکم ہے جو بائع کے لئے ہے۔(کتاب البیوع باب بیع الفاسد، جلد ٧، صفحہ ٣٠۰، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)
        مجدد اعظم سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں متوفی ١٣٤٠ھ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ:”چوری کا مال دانِستہ خریدنا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کو اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی عِلمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی مِلک بتائے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں  اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو، اور اُن کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو۔“اھ....(فتاویٰ رضویہ، کتاب البیوع، باب البیع الباطل والفاسد، جلد ١٧، صفحہ ١٦٥، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
      حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ:”اگر بائع ایسا شخص ہے کہ حلال وحرام یعنی چوری غصب وغیرہ سب ہی طرح کی چیزیں بیچتا ہے تو احتیاط یہ ہے کہ دریافت کرلے حلال ہو تو خریدے ورنہ خریدنا جائز نہیں اھ.....(بہار شریعت، کتاب البیوع، بیع فاسد کا بیان، جلد ۲، صفحہ ٧١٩، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب 
کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند 
٢٦ جمادی الاخر ١٤٤٦ھ۔ ٢٨ دسمبر ٢٠٢٤ء۔ بروز ہفتہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only