پیر، 6 جنوری، 2025

(کیاعقیقہ کے لئے بال اتروانا ضروری ہے؟)

 السلام علیکم و رحمة اللّٰه وبرکاته 
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بچہ ہے جس کو پیدا ہوئے آٹھ دن ہوا ہے اور اس کے سر کے  بال نہیں کاٹے ہیں تو کیا اس کا عقیقہ ہوجائے گا؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: محمد محسن رضا جھارکھنڈ

وعلیکم السلام ورحمة اللّٰه وبرکاتہ
 بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

”صورت مسئولہ میں عقیقہ ہوجائے گا کیونکہ عقیقہ کے لئے بال کٹوانا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے۔
نوٹ: بہتر یہ ہے کہ عقیقہ بچہ کی پیدائش کے ساتویں دن ہو اور اگر ساتویں دن نہ کیا تو پھر جب چاہیں کرسکتے ہیں سنت ادا ہوجائے گی.

       الشیخ الامام حافظ الدین محمد بن محمد بن شهاب المعروف بابن البزاز الكردري الحنفي المتوفى ٨٢٧ھ علیه الرحمة نے تحریر فرمایا ہے:”والعقيقة عن الغلام و عن الجارية وهو ذبح شاة في سابع الولادة وضيافة الناس وحلق شعره مباح لاسنة ولاواجب اه‍....
ترجمہ: اور بچہ اور بچی کا عقیقہ وہ ساتویں دن ایک بکری ذبح کرنا اور مہمانوں کی ضیافت کرنا اور اس کے سر کے بال کاٹنا مستحب ہے سنت (مؤکدہ) اور واجب نہیں ہے۔
(الفتاوی البزازية على هامش الفتاوى الهندية، جلد ٦، صفحہ ٣٧١، مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)
     حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے کہ:”ساتویں دن اوس کا نام رکھا جائے اور اوس کا سرمونڈا جائے اور سر مونڈنے کے وقت عقیقہ کیا جائے۔ اور بالوں کو وزن کر کے اوتنی چاندی یا سونا صدقہ کیا جائے(بہار شریعت، جلد ۳، صفحہ ٣٥٥، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب 

کتبہ
 عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
۳ رجب المرجب ١٤٤٦ھ۔ ٤ جنوری ٢٠٢٥ء۔ بروز ہفتہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only