جمعرات، 23 جنوری، 2025

( غیر مسلم کو ایماندار کہنا کیسا ہے؟ )

( غیر مسلم کو ایماندار کہنا کیسا ہے؟ )

 الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ غیر مسلم کو ایماندار کہنا کیسا ہے؟ جیسا کہ عوام باتوں میں کہتی ہے کہ فلاں بڑا ایماندار ہے۔

سائل:عبد الرزاق قادری، شراوستی یوپی الہند

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: کسی کو ایمان دار کہنے کے دو مطلب ہوتے ہیں، ایک یہ ہے کہ وہ ایمان والا ہے یعنی مسلمان ہے دوسرا یہ کہ وہ سچا، امانت دار، وفادار اور انصاف کرنے والا ہے۔

   چنانچہ ’’فیروز اللغات‘‘ میں ایمان دار کے معنی یہ لکھے ہیں: دیندار۔ صاحبِ ایمان۔ دیانت دار۔ امین۔ راستباز۔ سچا۔ صادق۔ باوفا۔ مُنصِف۔

   پہلے معنی کے اعتبار سے کسی غیر مسلم کو ایماندار نہیں کہہ سکتے کیونکہ کافر کو کافر جاننا ضروریات دین میں سے ہے اور اس کو مسلمان سمجھنے بلکہ اُس کے کفر میں شک کرنے سے آدمی خود کافر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ علّامہ قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ۵۴۴ھ لکھتے ہیں: الإجماع على كفر من لم يكفر أحدا من النصارى واليهود وكل من فارق دين المسلمين أو وقف في تكفيرهم أوشك، قال القاضي أبو بكر لأن التوقيف والإجماع اتفقا على كفرهم فمن وقف في ذلك فقد كذب النص والتوقيف أو شك فيه والتكذيب أو الشك فيه لا يقع إلا من كافر۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ۲/۲۸۱)

یعنی، اُس کے کفر پر اجماع ہے جو یہود ونصاری یا مسلمانوں کے دین سے جدا ہونے والے کو کافر نہ کہے یا اُس کو کافر کہنے میں توقّف(سکوت) کرے یا اُن کے کفر میں شک لائے، قاضی ابو بکر باقلانی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی دلائل اور اِجماع اُمت ان لوگوں کے کفر پر متفق ہیں پس جو ان کے کفر میں توقّف کرے وہ نص وشریعت کو جُھٹلاتا ہے یا اس میں شک رکھتا ہے اور یہ امر کافر ہی سے واقع ہوتا ہے۔

   اور دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: نكفر من لم يكفر من دان بغير ملة المسلمين من الملل أو وقف فيهم أو شك أو صحح مذهبهم وإن أظهر مع ذلك الإسلام واعتقده واعتقد إبطال كل مذهب سواه فهو كافر بإظهاره ما أظهر من خلاف ذلك۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ۲/۲۸۶)

یعنی، ہم کافر کہتے ہیں ہر اُس شخص کو جو کافروں کو کافر نہ کہے یا اُن کو کافر کہنے میں توقّف کرے یا شک کرے یا اُن کے مذہب کو ٹھیک بتائے اگرچہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو مسلمان کہتا اور مذہب اسلام کے حق ہونے اور اس کے علاوہ ہر مذہب کے باطل ہونے کا اعتقاد ظاہر کرتا ہو کہ اُس نے کافر کو کافر نہ جانا تو اپنے اُس اظہار کے خلاف اظہار کردیا۔

   جب کہ دوسرے معنی کے اعتبار سے مثلاً وہ تجارت میں دھوکہ دہی نہیں کرتا بلکہ سچ بولتا ہے تو اُسے اس معنی میں ایماندار کہہ سکتے ہیں مگر بہتر یہ کہ ایماندار کا لفظ نہ کہے تاکہ لوگ تشویش واضطراب(پریشانی) اور بدگمانی کا شکار نہ ہوں۔ویسے عموما دوسرے معنی کے اعتبار سے لوگ ایماندار کہتے ہیں اس لئے کہنے والے پر کو ئی حکم شرع بھی نافذ نہ ہوگا ۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
منگل،۲۰/رجب، ۱۴۴۶ھ۔۲۱/جنوری، ۲۰۲۵م

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only