(مدت سے پہلے بالغ ہونے کی علامت پائی جائیں تو کیا حکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو بالغ ہونے کی علامتیں بالغ ہونے کی عمر سے پہلے ظاہر ہوں تو کیا وہ لڑکا یا لڑکی بالغ مانی جائےگی؟جیسے 10 سال کا کوئی لڑکا رات میں سویا اور اسے احتلام ہو گیا ، اسی طرح اس نے مشت زنی کی اور اسے منی نکل آئی ، یا پھر اس نے کسی کے ساتھ جماع کیا اور حاملہ ہوگئی تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ نیز ان پر احکام شرعیہ ، مسائلِ دینیہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟یا اسی طرح کسی آٹھ سال کی لڑکی کو خون آیا توکیا حکم ہے؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی۔۔۔ محمد عاطف قادری ساکن ۔ محلہ گودام بہڑی ضلع بریلی شریف یو پی الہند
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی لڑکے یا لڑکی کو بالغ ہونے کی علامتیں بالغ ہونے کی عمر سے پہلے ظاہر ہوں تو کیا وہ لڑکا یا لڑکی بالغ مانی جائےگی؟جیسے 10 سال کا کوئی لڑکا رات میں سویا اور اسے احتلام ہو گیا ، اسی طرح اس نے مشت زنی کی اور اسے منی نکل آئی ، یا پھر اس نے کسی کے ساتھ جماع کیا اور حاملہ ہوگئی تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ نیز ان پر احکام شرعیہ ، مسائلِ دینیہ کے بارے میں کیا حکم ہے ؟یا اسی طرح کسی آٹھ سال کی لڑکی کو خون آیا توکیا حکم ہے؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی۔۔۔ محمد عاطف قادری ساکن ۔ محلہ گودام بہڑی ضلع بریلی شریف یو پی الہند
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
اسلامی مہینوں کے اعتبار سے لڑکے کی بالغ ہونے کی ابتدائی عمر کم سے کم بارہ سال ہے اور انتہائی عمر پندرہ سال ہے، اسی طرح لڑکی کی بالغ ہونے کی ابتدائی عمر کم سے کم 9 سال ہے اور انتہائی عمر پندرہ سال ہے ۔اگر اس عمر سے قبل لڑکا یا لڑکی میں کوئی بھی علامت بلوغ پائی جائے خواہ وہ مشت زنی سے منی کا نکلنا ہو یا پھر سوتے میں نکلنا ہو ، اسی طرح سے لڑکی کو مذکورہ عمر سے قبل خون آگیا تو شرعا دونوں بالغ نہیں مانے جائیں گے ، اور نہ ان پر شرع کا کوئی حکم نافذ ہوگا۔ ہاں اگر دونوں کی پندرہ سال کی عمر ہوگئی تو کوئی علامت پائی جائے یا نہ پائی جائے بہر صورت بالغ مانے جائیں گے ، اور ان پر احکام بھی نافذ ہونگے ۔
امام زین الدین ابن نجیم مصری حنفی مدت بلوغ کے متعلق فرماتے ہیں :'"قال رحمه الله: ( وأدنى المدة في حقه اثنتا عشرة سنةً وفي حقها تسع سنين) يعني لو ادعيا البلوغ في هذه المدة تقبل منهما، ولاتقبل فيما دون ذلك "(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ، جلد 8، کتاب الاکراہ ، باب الحجر ، فصل فی حد البلوغ، ص 154, مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ ۔مصنف علیہ الرحمہ نے فرمایا ، لڑکے کی بالغ ہونے کی عمر کم سے کم بارہ سال ہے ، اور لڑکی کی نو سال ہے ، یعنی اگر لڑکا اور لڑکی دونوں اسی مدت میں بالغ ہونے کا دعویٰ کریں تو ان کا یہ دعویٰ قبول کیا جائیگا ، اور اگر اس مدت سے پہلے دعویٰ کریں تو قبول نہیں جائے گا ۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"لڑکے کو جب انزال ہوگیا وہ بالغ ہے وہ کسی طرح ہو سوتے میں ہو جس کو احتلام کہتے ہیں یا بیداری کی حالت میں ہو۔ اور انزال نہ ہو تو جب تک اس کی عمر پندرہ سال کی نہ ہو بالغ نہیں جب پورے پندرہ سال کا ہوگیا تو اب بالغ ہے علامات بلوغ پائے جائیں یا نہ پائے جائیں ،لڑکے کے بلوغ کے لیے کم سے کم جو مدت ہے وہ بارہ سال کی ہے یعنی اگر اس مدت سے قبل وہ اپنے کو بالغ بتائے اس کا قول معتبر نہ ہوگا۔
لڑکی کا بلوغ احتلام سے ہوتا ہے یا حمل سے یا حیض سے ان تینوں میں سے جو بات بھی پائی جائے تو وہ بالغ قرار پائے گی اور ان میں سے کوئی بات نہ پائی جائے تو جب تک پندرہ سال کی عمر نہ ہو جائے بالغ نہیں اور کم سے کم اس کا بلوغ نوسال میں ہوگا اس سے کم عمر ہے اور اپنے کو بالغہ کہتی ہو تو معتبر نہیں۔(بہار شریعت جلد سوم ، حصہ 15، بلوغ کا بیان ، مسئلہ ، 1۔۔۔۔2، ص 203 ،مطبوعہ المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف
مؤرخہ ۔ 2025..1..2.
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف
مؤرخہ ۔ 2025..1..2.
ایک تبصرہ شائع کریں