(امیر کے یہاں رشتہ کرنا اور جہیز لینا کیسا ہے؟)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسٔلہ ذیل کے بارے میں کہ آج ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ امیر گھر کی لڑکی کے ساتھ رشتہ طے کرتے ہیں تاکہ جہیز زیادہ ملے ، اور پھر جہیز کی مانگ بھی کی جاتی ہے ۔تو اس نیت کے ساتھ امیر گھر رشتہ کرنا اور پھر جہیز کی ڈیمانڈ کرنا کیسا ہے؟قرآن حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں؟
سائل ۔. انوار الحسن ۔ساکن۔ بلرامپور یوپی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون ا لملک الوہاب
کتاب و سنت فقہ و فتاوی کی روشنی میں نکاح کے لئے لڑکی ہو یا لڑکا دیندار ہونا مطلوب ہے، شرعا فریقین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لڑکی یا لڑکے کے نکاح کے لئے رشتہ تلاش کریں تو دیندار لڑکے یا لڑکی سے کریں، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال، تنکح المراۃ لاربع ،لمالھا، ولحسبھا ، وجمالھا ، ولدینھا، فاظفر بذات الدین تربت یداک"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے تو تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی ) (صحیح بخاری، جلد اول، کتاب النکاح ، باب الأکفاء فی الدین، حدیث نمبر 5090 ص 1298 ، مطبوعہ دار ابن کثیر )
حدیث شریف میں صراحت کے ساتھ دیندار لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ امیر ہو غریب، حسین ہو یا نہ ہو بہر حال شریعت دینداری کو ترجیح دیتی ہے،لیکن اگر کسی نے امیر گھر رشتہ کر دیا اور شرعی طور نکاح پڑھا دیا تو اس روئے شرع یہ نکاح بھی جائز و درست ہو جائے گا ، ،رہی بات جہیز مانگنے کی تو اسکا حکم شرعی یہ ہے کہ اگر لڑکے والے لڑکی کے گھر والوں سے جہیز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو یہ ناجائز و ممنوع ، حرام و گناہ کبیرہ ہے کیونکہ از روئے شرع یہ رشوت ہے اور رشوت حرام و گناہ کبیرہ ، فعل بد انجام موجب غضب جبار ہے۔
رشوت کے متعلق احادیث میں وعید آئی ہےرسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی "حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔(سنن ترمذی ، جز ثالث، حدیث نمبر 1337، ص 235، )
ملا نظام الدین ہندی فرماتے ہیں :لو جھز ابنتہ وسلمہ الیھا لیس لہ فی الأستحسان استردادہ منھا وعلیہ الفتوی لو أخذ أھل المرأۃ شیئا عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لأنہ رشوۃ "اگرکسی نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا اور اپنی بیٹی کے سپرد کر دیا تو بطور استحسان اب اس کے لئے بیٹی سے جہیز واپس مانگنا جائز نہیں ہے، اگر عورت کے گھر والوں نے شوہر کے گھر والوں سے رخصتی کے وقت کچھ لیا تھا تو شوہر کو اسکے واپس لینے کا حق ہے کیونکہ عورت کے گھر والوں کا شوہر کے گھر والوں سے کچھ لینا رشوت ہے۔(فتاوی ہندیہ، جلد اول، کتاب النکاح، باب المھر ، الفصل السادس عشر فی جھاز البنت، صفحہ359، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان )
تو جب لڑکے والوں سے لینا رشوت ہے تو لڑکی والوں سے جہیز کی مانگ کرنا بدرجۂ اولی رشوت ہوگا ،البتہ اگر لڑکی والا اپنی خوشی و رضا سے بغیر مانگے ہوئے اپنی بیٹی یا اسکے شوہر کو بطور جہیز کچھ دے تو کوئی حرج و قباحت نہیں بلا شک و شبہ اسکا دینا لینا جائز و درست ہے ۔یہی مفہوم فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد اول، باب الجھاز، صفحہ 567، 568، پر ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کا نکاح دیندار گھرانہ میں ہونا زیادہ بہتر و افضل ہے کہ قرآن و حدیث میں اسکی ترغیب آئی ہے۔ واللہ تعالی ورسولہ اعلم با لصواب
کتبہ
العبد الضعیف الحقیر المحتاج الی اللہ القوی القدیر محمد ایاز حسین تسلیمی
ساکن: محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی یوپی انڈیا
ایک تبصرہ شائع کریں