(قرض کا مسئلہ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ فردین پر تسلیم کے 4000 روپے قرض آرہے تھے اور فردین کے شجاعت پر 4000 روپے قرض کے آرہے تھے ، جب تسلیم نے فردین سے 4000 ہزار مانگے تو فردین نے کہا کہ ابھی میرے پاس تو نہیں ہے لیکن میں شجاعت سے آپکو دلا دیتا ہوں اور پھر فردین نے شجاعت سے فون پر کہا کہ میرے جو 4000 ہزار روپے تمہارے اوپر قرض ہیں وہ تم مجھے نہ دے کر تسلیم کو دے دینا ، شجاعت نے 4000 روپے ڈائریکٹ تسلیم کو دے دئیے .تو کیا اس صورت میں فردین کا قرض ادا ہوا کہ نہیں ؟ نیز شجاعت کو فردین کو دینے تھے لیکن فردین کے کہنے پر تسلیم کو دینے سے شجاعت اپنے قرض سے بری ہوا کہ نہیں ؟ کتاب و سنت فقہ حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
السائل۔ محمد جابر حنفی ۔ساکن۔ بریلی شریف
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب وھو الموفق للحق والصواب
صورت مسئولہ میں فردین کا قرض ادا ہو گیا ، کیوں کہ فردین کا فون سے شجاعت سے یہ کہنا کہ 4000 روپے تسلیم کو دے دینا گویا کہ شجاعت کو وکیل بنانا ہے ، اور وکیل نے اپنے مؤکل کے حکم کے مطابق کام صحیح کیا ، لہذا فردین اپنے قرض سے بری ہو گیا ،
رہی بات یہ کہ شجاعت کو اپنے قرض کے پیسے فردین کو دینے تھے لیکن فردین کو نہ دیکر بلکہ اس کے کہنے سے ڈائریکٹ تسلیم کو دے دئے تو شجاعت کا بھی قرض ادا ہو گیا کیوں کہ از روئے شرع مقروض کا قرض ادا ہونے کے لیے قرض خواہ کو ہی دینا ضروری نہیں بلکہ قرض خواہ کے حکم سے کسی شخص یا کسی جگہ بھی دے سکتے ہیں ، قرض ادا ہو جائے گا ،
امام علاء الدین الحصکفی تحریر فرماتے ہیں : ولو امر رجل مدیونہ بشراء شئی معین بدین لہ علیہ وعینہ او عین البائع صح وجعل البائع وکیلا بالقبض دلالۃ فیبرا الغریم بالتسلیم الیہ، ولو امر رجل مدیونہ بالتصدق بما علیہ صح امرہ بجعلہ المال لللہ تعالیٰ وھو معلوم کما صح امرہ لو امر الآخر المستاجرۃ بمرمۃ ما استاجرہ کما علیہ من الاجرۃ"
(در مختار شرح تنویر الابصار جلد 8، کتاب الوکالۃ ، باب الوکالۃ بالبیع والشراء ، ص 253، 254، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
اگر قرض دینے والے نے قرض لینے والے کو اپنے قرض کے بدلے میں کسی متعین چیز کو خریدنے کا حکم دیا یا پھر قرض خواہ نے بائع کو متعین کر دیا تو یہ جائز ہے ، اور دلالۃ بائع کو قبضہ دے کر وکیل بنا دیا گیا تو وکیل بائع کو ثمن سپرد کرنے سے اپنے قرض سے بری ہو جائے گا ، اگر کسی نے اپنے قرض کے متعلق قرض لینے والے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اس کا اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کے لئے خیرات کردینے کا حکم دینا صحیح ہے اور وہ معلوم ہے ، یوہیں کرایہ دار کو کرایہ کے عوض گھر کی مرمت کرنے کا حکم دینا بھی صحیح ہے ،
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:زید کا عمرو پر دَین ہے زید نے عمرو سے کہا کہ تمھارے ذمہ جو میرے روپے ہیں اُن کے بدلے فلاں چیز معین میرے لیے خرید لو یا فلاں سے فلاں چیز خرید لو یعنی چیز معین کر دی ہو یا بائع کو معین کر دیا ہو یہ توکیل صحیح ہے عمرو خرید کر جب وہ روپیہ بائع کو دیدے گا زید کے دَین سے بری الذمہ ہو جائے گا زید نہ تو چیز کے لینے سے انکار کر سکتا ہے نہ اب دَین کا مطالبہ کر سکتا ہے،
دائن نے مدیون سے کہہ دیا کہ میرا روپیہ جو تمھارے ذمہ ہے اُسے خیرات کر دو یہ کہنا صحیح ہے خیرات کر دے گا تو دائن کی طرف سے ہو گا اب دَین کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ یوہیں مالک مکان نے کرایہ دار سے یہ کہا کہ کرایہ جو تمھارے ذمہ ہے اُس سے مکان کی مرمت کرادو اُس نے کرا دی درست ہے کرایہ کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔
(بہار شریعت جلد 2، حصہ12، خرید وفروخت میں توکیل کا بیان ، مسئلہ 35۔36. ص 989 ، مطبوعہ المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
لہذا مذکورہ صورت میں اگر چہ شجاعت نے فردین کو قرض کی رقم نہ دی لیکن فردین کے حکم سے تسلیم کو دینے سے بھی شجاعت کا قرض ادا ہو گیا ۔واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ
العبد الضعیف الحقیر محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی ۔
ساکن۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف ۔
مؤرخہ ۔ 2025...2..1۔
ایک تبصرہ شائع کریں