اتوار، 2 مارچ، 2025

(بلند آواز سے سلام پڑھناکہ نمازمیں خلل ہوکیساہے؟)

(بلند آواز سے سلام پڑھناکہ نمازمیں خلل ہوکیساہے؟)

السلامُ علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ  
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارےمیں کہ فجر کی نماز کے بعد کُچھ لوگوں کی نماز چھوٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بعد میں پڑھتے ہیں ایک آدمی بول رہا ہے کہ سلام پڑھتے ھو نماز میں خلل واقع ہوتا ہے
تو ایسی صورت میں کیا تدبیر اختیار کرنی چاہیے؟جواب دیکر شُکریہ کا موقع فراہم کریں.اللّٰہ بہترین جزا عطا فرمائے آمین یارب العالمین
سائل محمد قیصر خان انڈیا 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ 
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

سلام پڑھنا مستحسن عمل اور باعث اجر وثواب ہے. خود قرآن پاک میں درود وسلام بھیجنے کا حکم ہے، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:"اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا°  بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں. اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو(الاحزاب/٥٦)

لہذا بعد میں آنے والوں کوچاہئے کہ جماعت سے نماز پڑھیں تاکہ دہرا ثواب مل جائے ایک جماعت کا دوسرا درود سلام کا اور اگرکسی وجہ سے ترک ہوجائے اور لوگ سلام میں مشغول ہوں تو سلام میں شریک ہوجائے بعد سلام فجر نماز اداکرے.ہاں اگر وقت کم ہو تو درود وسلام میں شریک نہ ہوپہلے نماز اداکرے اس صورت میں دیگر نمازیوں کو سمجھادیاجائے کہ سلام آہستہ اورمختصر پڑھیں 

مسجد میں قرآن مجید بلند آواز سے پڑھنے کے متعلق  اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوا ل ہوا:"(سوال)اگر کوئی مسجد میں بآواز بلند درود و وظائف، خواہ تلاوت کررہاہو اس سے علیحدہ ہو کر نماز پڑھنے میں بھی آواز کانوں میں پہنچتی ہے، لوگ بھو ل جاتے ہیں، خیال بہک جاتا ہے، ایسے موقع پر ذکر بالجہر تلاوت کرنے والے کو منع کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ یعنی آہستہ پڑھنے کو کہنا بالجہر سے منع کرنا، اگر نہ مانے تو کہاں تک ممانعت کرناجائز ہے؟ (الجواب)بیشک ایسی صورت میں اسے جہر سے منع کرنا فقط جائز نہیں بلکہ واجب ہے، کہ نہی عن المنکر ہے، اور کہاں تک کا جواب یہ کہ تا حد قدرت جس کا بیان اس ارشاد اقدسِ حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم میں ہے:"من رأی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان"جو تم میں کوئی ناجائز بات دیکھے اس پر لازم ہے کہ اپنے ہاتھ سے اسے مٹادے بند کردے، اور اس کی طاقت نہ پائے تو زبان سے منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اسے بُراجانے، اور یہ سب میں کمتردرجہ ایمان کا ہے. اور جہاں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں اور قرآن عظیم کے استماع کے لئے کوئی فارغ نہ ہو وہاں جہراً تلاوت کرنے والے پر اس صورت میں دوہرا وبال ہے، ایک تو وہی خلل اندازیِ نماز وغیرہ کہ ذکر جہر میں تھا، دوسرے قرآن عظیم کو بے حرمتی کے لئے پیش کرنا."( فتاویٰ رضویہ ج:8ص:99رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

دوسرے مقام پر ہے:''جہاں کوئی نماز پڑھتا ہو یا سوتا ہو کہ بآواز پڑھنے سے اس کی نماز یا نیند میں خلل آئے گا وہاں قرآن مجید و وظیفہ ایسی آواز سے پڑھنا منع ہے، مسجد میں جب اکیلا تھا اور بآواز پڑھ رہاتھا جس وقت کوئی شخص نماز کے لئے آئے فوراً آہستہ ہوجائے."(فتاویٰ رضویہ ج:8،ص:100،رضافاؤنڈیشن،لاہور) واللہُ تعالٰی اَعْلَمُ

نوٹ: بعض لوگوں کو درودوسلام سے تکلیف پہونچتی ہے تو اسےروکنے کےلئے طرح طرح کے حیلے کرتے ہیں پس اگرکوئی روزانہ بعد جماعت آتاہوتو اس کی باتوں پر دھیان نہ دیں ہوسکتاہے کہ بدمذہب ہو درود وسلام کوروکنا چاہتاہو.
کتبہ محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ 
30 شعبان المعظم 1446 ھجری
1 مارچ 2025 عیسوی شنبہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only