جمعہ، 9 مئی، 2025

(بلاحاجت شرعیہ مکتب کے لئے چندہ کرنا کیساہے؟)

(بلاحاجت شرعیہ مکتب کے لئے چندہ کرنا کیساہے؟)

کیافرمان ہے علماء اہلسنت مفتیان کرام کا نیچے دیئے گئےمسائل میں کہ زید ایک قصبہ سے متصل گاؤں (دیہات) کی مسجد کاامام ہےاس گاؤں میں ایک مکتب بھی چل رہاہے۔گاوں کے آبادی95/پرسنٹ خوشحال۔صاحب ثروت لوگوں پر مشتمل ہے گاؤں میں تقریبا سبھی کسان لوگ کھیتی باڑی کے ذریعہ دھان گیہوں کا عشر چرم قربانی ودیگرامور میں اپنے مکتب میں غلہ وروپیہ پیسہ بطور تنخواہ مدرس و اما م کودیکرمکتب چلاتے ہیں مدرسہ کے ذمے دار امام صاحب کو ممبئی گجرات ودیگرجگہوں پہ بھیج کر زکوٰۃ کی وصولی کراتے ہیں امام صاحب بھی خوش ہیں کہ اسی خدمت کے بہانے ہماری روزی روٹی لگی رہے گی ذمہ دار لوگ بھی خوش ہیں کہ ایسے ہی مدرس کو رکھو جو رمضان شریف میں باہر جاکر خوب چندہ لےکر آئے حالانکہ اگر امام ومدرس لوگوں کو مسئلہ بتائیں کہ آپ لوگ خوشحال صاحب ثروت ہو اپنی ذاتی رقم سے مدرسہ چلاسکتے ہو۔ہم زکوٰۃ کی وصولی کے لئے باہر نہیں جائیں گے۔مگر یہ نہ واضح کرکے حیلہ شرعی کے جواز کا گوشہ شوشہ چھو ڑکرسب کو مطمئن کئے ہوئے ہیں۔ امکان غالب ہے کہ زکؤۃ کی رقم لاکر حیلہ شرعی بھی نہ کرتے ہوں۔کوں کہ گاوں میں کوئی ایسا غریب نہیں جس کے ذریعہ حیلہ شرعی کیاجاسکے
  اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے گاؤں والے مکاتب میں زکوٰۃ کی وصولی کرانا جائز ہے ؟ اوران دینے والوں کی زکوٰۃ اداہوجاتی ہے؟کیا ایسے امام ومدرس لوگوں کو خوش کرنے کے لئے حیلہ شرعی کا بہانا بناکر زکوٰۃ وصول کرکے اللہ ورسول کے نزدیک مجرم نہیں ہیں کیا یہ محصلین کی ذمےداری داری نہیں کہ منیجر۔خزانچی سے کہہ کرزکؤہ والی رقم کی حیلہ شرعی کرائیں جو قرآن وحدیث کا فرمان ہے واضح فرمائیں اور اللہ ورسول (جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم)سے اجر کے مستحق بنیں
سایل:رفیع الدین نوری۔کٹیہاروی

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
اللھم ہدایۃ الحق والصواب الجواب بعون الملک الوھاب 

صورت مسئولہ زکوۃ و صدقہ فطر، صدقۂ واجبہ جس کے اصل حقدار فقراء و مسکین ہیں خود قرآن کریم زکوۃ و صدقہ فطر کے مصارف کا ذکر موجود ہے ،
رہی بات مدرسہ و مکتب میں زکوۃ و صدقہ فطر صرف کرنے کی تو اس بارے میں حکم شرع یہ ہے کہ زکوۃ و صدقہ فطر مکتب و مدرسہ میں صرف کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہے ایک تو یہ کہ  وہ مدرسہ و مکتب خالص دینی ہو اور دوسری یہ کہ اس مدرسہ و مکتب کا زکوۃ و صدقہ فطر کے بغیر چلنا نا ممکن ہو ، جب یہ دونوں باتیں پائی جائیں گی تو پھر زکوۃ و صدقہ فطر کی رقم حیلۂ شرعی کرنے کے بعد لگانا جائز و درست ہوگا ،

صورت مسئولہ میں اس مکتب کا ذاتی رقوم سے چلنا ممکن ہے کیونکہ وہاں کے لوگ مالدار ہیں بآسانی اس مکتب کو ذاتی رقوم سے چلا سکتے ہیں ، لہذا اس مکتب کے لئے مدرسہ کے ذمہ دار کا مدرس و امام  کو زکوۃ وصول کرنے کے لئے بھیجنا اور مدرس وامام کا وصول زکوۃ کے لئے جانا شرعا ناجائز و گناہ ہے ، اور مدرس و امام پر حیلۂ شرعیہ کے عدم جواز اور شرعی حکم بتانا لازم و ضروری ہے ورنہ مدرس و امام گناہگار ہوگا ، 

نیز سائل نے جیسا کہ بتایا کہ گاؤں میں کوئی مستحق زکوۃ نہیں ہے ، اور اس بات کا غالب گمان ہے کہ مدرس و امام کا زکوۃ وصول کرنے کے بعد بغیر حیلۂ شرعیہ کے بعد ڈائریکٹ مدرسہ کے امور صرف کرنا بلا شک و شبہ سخت ناجائز و گناہ ہے ، اور اس صورت میں کسی کی بھی زکوۃ ادا نہیں ہوگی ، 

لہذا اگر مذکورہ دونوں شرطیں پائی جائیں تو پھر حیلۂ شرعیہ دوسرے گاؤں سے بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ایک بھی شرط فوت ہوئی تو پھر حیلۂ شرعیہ کرانے کے باوجود اس مکتب میں زکوۃ و صدقہ فطر کی رقم صرف کرنا جائز و درست نہ ہوگا ۔
 حیلۂ شرعیہ کی اجازت سے متعلق فتاوی مرکز تربیت افتاء میں ہے۔
"" حیلۂ شرعیہ کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے ایک یہ کہ غیر مصرف میں وہ رقم لگانے کی ضرورت پائی جائے دوم یہ کہ وہ فی نفسہ قربت اور ثواب کا کام ہو تو جہاں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں گی وہی حیلے کی اجازت ہوگی اس کے نہ ہونے کی صورت میں حیلے کی اجازت نہیں"" کچھ صفحہ آگے ہے ۔ اور دینی مکاتب کے مصارف قلیل ہوتے ہیں وہ لوگوں کے چندے عطیات اور چرم قربانی کی رقم سے چل سکتے ہیں اس لیے ان میں زکوۃ و صدقے کی رقم نہ استعمال کریں"(فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد اول کتاب الزکوۃ ،صفحہ 421. 424.)

مکتب کے ذمہ دار کا امام و مدرس کو زکوۃ و صدقہ فطر کی رقم وصول کرنے کے لئے بھیجنا ناجائز و گناہ ہے اور بخوشی امام صاحب کا دورہ پر جانا گناہ پر مدد کرنا ہے ، اور گناہ و جرم پر مدد کرنے پر اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے"ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان"(سورۂ مائدہ)ترجمہ ۔گناہ پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ۔

اعلی حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں :"اغنیائے کثیر المال شکر نعمت بجا لائیں ہزاروں روپے فضول خواہش یا دنیاوی ارائش میں اٹھانے والے مصارف خیر میں حیلوں کی اڑ نہ لیں متوسط الحال بھی ایسی ضرورتوں کی غرض سے خالص خدا ہی کے کام میں سرف کرنے پر اقدام کریں"(فتاوی رضویہ قدیم جلد چہارم کتاب الزکوۃ صفحہ نمبر396مطبوعہ ارام باغ کراچی روڈ پاکستان)

نیز سائل کے غالب گمان کے مطابق اس گاؤں میں کوئی شرعی فقیر نہیں ہے جس حیلۂ شرعیہ کرایا جائے لہذا اگر زکوۃ مستحق زکوۃ تک نہ پہونچی تو کسی کی بھی زکوۃ ادا نہیں ہوگی ، جیسا کہ فقہاء کرام کی ارشادات کی روشنی میں واضح ہے ،واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ
العبد الضعیف المحتاج الی اللہ القوی القدیر محمد ایاز حسین تسلیمی 
ساکن  محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی شریف 
مورخہ۔ 2025..5...5

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only