(کفارکےمرن بھوج کوکھانے والا اذان دے سکتاہے؟)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع متین مسئلئہ ذیل کے بارے میں کہ جب کسی ہندو کا انتقال ہوجاتا ہے تو زید ہندو کے جنازے کے ساتھ ان کے شمشان گھاٹ تک جاتا ہے اور جو ہنود اپنے میت کے ساتھ غلّہ ،پھل وغیرہ لے کر جاتے ہیں تو زید وہ غلّہ وغیرہ وہاں سے لیکر آتا ہے اور خود کھاتا ہے تو اس غلّے کا وہاں سے لانا اور کھانا کیسا ہے؟ نیز کبھی کبھی زید آذان و اقامت بھی کہتا ہے تو اسکا اذان و اقامت کہنا کیسا ہے؟
مدلل و مفصّل جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم فرمائیں فقط السلام
سائل: عبدالسلام ثنائی نیپال
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
دریافت کردہ مسئلے میں شخص مذکور اگر حرام سمجھ کر ایسا کرتا یے تو اس پر فی الفور اعلانیہ توبہ و استغفار فرض ہے اور اگر معاذاللہ حلال سمجھ کر شمشان گھاٹ جاتا ہے،غلہ پھل وغیرہ کھاتا ہے تو اس صورت میں زید پر لازم ہے کہ اعلانیہ توبہ و استغفار کے ساتھ تجدید ایمان بھی کرے اگر شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح بھی کرے،زید جب تک اعلانیہ توبہ و استغفار یا تجدید ایمان نہ کرلے تو اہل بستی پر لازم ہے کہ اس کا سماجی مقاطعہ کریں اور اسے اذان و اقامت کہنے سے روک دیں! اللہ تبارک و تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:”وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖؕ”۔ترجمہ:اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔(القرآن سورۃالتوبة آیۃ٨٤)
مفتی اعظم ترکستان حضرت علامہ ابوالفدا اسماعیل حقی بن مصطفٰی استانبولی سہروردی خلوتی المتوفٰی ١١٢٧ھ) علیہ الرحمہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:”ولا تقف عند قبرہ للدفن او للزیارۃ و الدعاء”ترجمہ: اور اس کی قبر کے پاس دفن یا زیارت اور دعا کے لیے کھڑے نہ ہوں۔(تفسیر روح البیان،التوبۃ،تحت الایۃ ٨٤)
معاذاللہ ہندو مردے کا غلہ،پھل کھانا یا اس کے مرن بھوج میں شریک ہونا اگر اس نیت سے ہو کہ اس کا ثواب مردے کو پہنچےگا یا اس کی بخشش ہوگی تو یہ صریح کفر ہے کیوں کہ کافر کے لیے مغفرت کی دعا کرنا کفر ہے!جیساکہ رد المحتار میں ہے:”ان الدعاء بالمغفرۃ للکافر کفر”ترجمہ: کافر کے لئے دعاۓ مغفرت کفر ہے۔(رد المحتار،ج٢ کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،مطلب فی الدعاء المحرم،صفحہ ٢٨٨دار المعرفہ)
اگر نیت ایسی نہیں ہے تو حرام ضرور ہے۔چنانچہ شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: ہندو مردے کے مرن بھوج میں شریک ہونا حرام ہے بلکہ منجر الی الکفر ہےـ (یعنی کفر تک لے جانے والے ہیں) ہندو یہ کھانا اس نیت سے کرتے ہیں کہ کھانے والے جو کچھ کھائیں گے وہ میت تک پہنچے گا اگر معاذ اللہ کسی مسلمان کا یہ اعتقاد ہوگیا کہ ہم نے جو کچھ یہاں کھایا ہے وہ اس ہندو مردہ تک پہنچے گا تو اس کا ایمان جاتا رہا کیونکہ اس نے کافر کوثواب کا اہل جانا اور یہ کفر ہے ـ (فتاوی شارح بخاری جلد ثانی صفحہ ۶۲۹)
کسی غیر مسلم کی میت میں شمشان گھاٹ جانا حرام اور گناہ ہے اور حلال جانتے ہوۓ جانا کفر ہے جیساکہ شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”غیر مسلم مردے کے ساتھ شمشان گھاٹ جانا گناہ ہے اور اس طرح جائے کہ وہ بھی انکی بولی بولتا ہے تو کفر ہے اور اس صورت میں یہ حکم ھے کہ توبہ تجدید ایمان کرے بیوی والا ھے تو تجدید نکاح بھی کرے اور اگر بیوی والا نہیں ھے تو صرف تجدید ایمان کرے۔( فتاوی شارح بخاری،ج٢ ص ٥٦٠،شبیر برادرز)
حلال سمجھ کر میت میں شریک نہ ہو تو حکم کفر نہ لگےگا جسیاکہ جانشین سیدی اعلٰی حضرت، حضرت علامہ مفتی اختر رضا خان ازہری میاں علیہ الرحمہ لکھتے ہے:”زید سخت گناہ گار ہوا اس پر توبہ لازم ہے مگر ایسا کرنے سے وہ کافر نہ ہوگیا کہ تجدید نکاح اس پر لازم ہوجائے تجدید نکاح کا حکم نہ کریں گے جب تک کہ ثابت نہ ہو کہ وہ حلال سمجھ کر اس کی میت میں شریک ہوا مسلم سے ایسا گمان حرام ہے ہاں بہتر ہے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح کرلے۔(فتاوی تاج الشریعہ،ج٢،ص٤٤ مرکز الدراسات الاسلامیہ)
نوٹ : اگر زید اپنے افعال مذمومہ سے باز آجاۓ اور توبہ و استغفار کرلے تو بہتر ہے ورنہ اس کے ساتھ کسی طرح کا کوئی تعلق نہ رکھیں نہ اسے کسی کار خیر میں شریک کریں نہ اذان و اقامت کہنے دیں،چنانچہ اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ "فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ"ترجمہ:اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ (سورۃالانعام آیت ٦٨) اگر صدق دل سے توبہ و استغفار کرلے تو اب اس کے ساتھ تعلقات قائم کر سکتے ہیں! واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ سہروردیہ غوثیہ داہود شریف الہند
بتاریخ ٢٢شوال المکرم ١٤٤٦ھ
بمطابق٢١اپریل٢٠٢٥ء
بروز دو شنبہ (پیر)
ایک تبصرہ شائع کریں