(جومزارپر جانے والوں کومشرک کہے اس پرکیاحکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین ایسے شخص کے بارے میں جو یہ کہتا ہے کہ اللہ کے علاوہ جو بھی کسی اور سے مانگتا ہے وہ مشرک ہے(جیسے مزار پرجاکرمانگنا قبروالوں سےمانگنا شرک ہے) اس کے علاوہ وہ شخص کہتا ہے کہ میں بریلوی کو اہل شرک مانتا ہوں اور علماء اہل سنت کو گالیاں دے رہا ہے ایسے شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کیا اس کے ہاں شادی بیاہ کرنا جائز ہے کہ نہیں؟
المستفتی: غلام رسول اترولہ بلرام پور
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب ھو الھادی الی الصواب ولیہ المرجع المآب
قبر پریامزار پر جانے والوں کو یا مزار پرجاکر مانگنے والوں کو مشرک کہنا بدعتی کہنایہ دیوبندیوں وہابیوں کی بولی ہے پس اگر یہ شخص اگر دیوبندی یا وہابی یاکسی فرقہائے باطلہ کاماننے والاہےتویہ پہلے سے کافر ومرتد ہے اس کے متعلق مزید حکم لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہے.
اور اگر سنی تھا پھر کسی کےبہکاوے میں آگیایاغلط لوگوں کی صحبت میں رہ کر بہک گیاہے توپہلے اسے سمجھایا جائے کہ بریلوی مشرک نہیں بلکہ یہی مااناعلیہ واصحابہ کے مصداق ہیں یعنی قبروں پر جانا جائز ہےخود سرکار علیہ السلام نے فرمایاہے جیساکہ حدیث شریف میں ہے:’’ عَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَا رَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوہا‘‘ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضو ر ﷺ نے فر ما یا کہ میں نے تم لو گو ں کو قبرو ں کی زیا رت سے منع کیا تھا لہٰذا(اب تمہیں اجازت دیتا ہو ں کہ) ان کی زیا رت کیا کرو ۔(مسلم جلد اول کتاب الجنا ئز صفحہ ۳۱۴ ،مشکوٰۃ باب زیارۃ القبور الفصل الاول صفحہ ۱۵۴)
محقق علی الاطلاق حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخا ری رحمۃ اللہ تعا لی علیہ مذکورہ حدیث کی شرح میں فر ما تے ہیں کہ زما نہ جا ہلیت سے قرب کے سبب اس اندیشہ سے حضور ﷺ نے پہلے قبروں کی زیا رت سے منع کر دیا تھا کہ لو گ ان کے سا تھ پھر کہیں جا ہلیت والا رویہ نہ اختیا ر کر لیں ۔پھر جب اسلام کے قوا نین سے لو گ خوب آگاہ ہو گئے تو آپ نے قبروں کی زیا رت کے لئے اجا زت دے دی۔ (اشعۃ اللمعات جلد اول صفحہ ۷۱۷)
چونکہ جب لوگ اسلام کے قوانین سے آگاہ ہوگئے تو حضور علیہ السلام نے اجازت دی اور جانے کے فوائد بھی بیان فرمائے جیساکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ مصطفی جان رحمت ﷺ نے فرما یا ۔{ نَھَیْتُکَمْ عَنْ زِیَا رَۃِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْھَا فَاِنَّھَا تُزَھِّدُ فِی الدُّنْیَا وَتُذَکِّرُ الْاٰخِرَۃَ}میں نے تم لو گو ں کو قبروں کی زیا رت سے منع کیا تھا لہٰذا(اب تمہیں اجازت دیتا ہو ں کہ )ان کی زیا رت کرو اس لئے کہ قبروں کی زیا رت دنیا سے بیزار کرتی ہے اور آخرت کی یا د دلا تی ہے۔ ( ابن ما جہ جلد اول ابواب ماجاء فی الجنا ئز صفحہ ۱۱۲،مشکوٰۃ باب زیارت القبورالفصل الثالث صفحہ۱۵۴)
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع جاتے تھے شہدائے احد کی قبر پر گئے ہیں جو کتب احادیث سے ثابت ہے.
اور جس طرح قبروں پر مزاروں پر جانا جائز ہے اسی طرح اللہ کے ولیوں کے وسیلے سے مانگنابھی جائز ہے جیساکہ ارشاد ربانی ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ " اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو ۔(سورہ مائدہ آیت نمبر ۳۵)
یعنی اللہ کے نیک بندوں کے وسیلوں سے دعامانگنا جائز ہے ہاں بعض لوگ مزارات اولیاء پر جاکر خود صاحب قبر سے مانگتے ہیں جیسے یاخواجہ بیٹا دےدو دولت دے دو وغیرہ تو اگرچہ یہ مناسب نہیں مگرجائز ضرور ہے اور اسکا بھی ثبوت قرآن سے ہے چنانچہ سورہ مریم میں ہے سیدنا جبرئیل علیہ السلام حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہاکے پاس حاضر ہوئے جبکہ حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا تنہا تھی توڈر گئیں اور بولی:قَالَتْ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّا"بولی میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے خدا کا ڈر ہے۔توجبرئیل علیہ السلام نے فرمایا قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا"بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں ۔(سورہ مریم آیت نمبر ۱۸/۱۹)
حالانکہ حقیقت بیٹادینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے فرمایا کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں ۔یعنی یہ جبرئیل علیہ السلام کا دینابھی حقیقت میں رب کادیناہے یونہی اللہ کے ولیوں سے مانگنا درحقیقت اللہ سےہی مانگناہے یا بزرگوں کادینا حقیقت میں اللہ کاہی دیناہے۔
مذکورہ شخص کو یہ ساری باتیں تفصیل سے سمجھائی جائیں اگر مان جاتاہے تو ٹھیک ہے توبہ واستغفار کرلے جن علماء کا گالیاں دی ہیں معافی مانگ لے اللہ غفور رحیم ہے وہ معاف کرنے والاہے.
اور اگر اپنے افعال قبیحہ و اقوال رزیلہ سے باز نہیں آتاہے بلکہ کافرہی مانتاہے تو پھر ایسی صورت میں وہ خود کافر ہوگا کیونکہ ارشاد نبوی ہے : من کفر مسلما فقد کفر" جس نے کسی مسلمان کو کافر قرار دیا وہ خود کافر ہوگیا ۔ (مسند احمد جلد۲صفحہ۲۳)
مزید فرمایا : من دعا رجلا بالکفر اوقال عد وا للہ ولیس کذلک الا حار علیہ" جس نے کسی (مسلمان) شخص کو کافر یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہا اور وہ ایسا نہیں تھا تو یہ (باتیں) خود اس کی طرف لوٹ جائیں گی۔ یعنی وہ خود کافر اور بے ایمان ہوجائے گا ۔( مسلم جلد۱صفحہ۵۷، مشکوٰۃ صفحہ۴۱۱)
نیزارشاد فرمایا : اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہٖ احدھما "جس نے اپنے (مسلمان)بھائی کو کہا:اے کافر!… تو یہ کلمہ دونوں میں سے کوئی ایک لے کر اٹھے گا ۔ (بخاری جلد۲صفحہ۹۰۱واللفظ لہٗ مسلم جلد۱صفحہ۵۷)
یعنی اگر کہنے والا سچا ہے تو دوسرا کافر ہوگا ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا ۔
پس ایسی صورت میں اس شخص کا سماجی بائیکاٹ کردیا ہے کیونکہ ارشاد ربانی ہے: وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ"اور جو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(سورہ انعام آیت نمبر ۶۸)واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
ایک تبصرہ شائع کریں