منگل، 5 اگست، 2025

(کیاکسی کے انتقال پر چالیس دن گھر پر رکناضروری ہے)

 

  (کیاکسی کے انتقال پر چالیس دن گھر پر رکناضروری ہے)

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں زید علاقہ ٹھاکرگنج کا رہنے والا ہے، جہاں کی یہ رسم برسوں سے چلی آرہی ہے،اگر گھر میں کسی بڑے بزرگ کا انتقال ہو جائے تو انکے وارثین میں جو بڑے ہوں انکے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ 40 دنوں تک کسی کے گھر جا نہیں سکتا، کسی کے گھر کھا نہیں سکتا، انکو چالیس دن تک گھر میں ہی رہنا ہے،اب طلب امر یہ ہے، کیا شریعت کے حساب سے اس رسم پر عمل کرنا درست ہے،؟اور اگر زید اس رسم کو نہ مانیں تو کیا انکے لئے دنیوی یا اخروی نقصان کا اندیشہ ہے،گزارش ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں،جزاک اللہ خیراً کثیرا 

المستفتی: احقر محمد مشتاق احمد رضوی

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

الجواب بعون الملک الوھاب وھو الموفق للحق والصواب 

مذکورہ صورت میں بیان کی گئی رسم خواہ یہ رسم برسوں سے چلی آرہی ہو اس رسم کا شریعت مطہرہ سے کوئی تعلق نہیں ، نیز شرعا اس رسم کا اداکرنا ضروری نہیں بلکہ اس  پر عمل نہ کرنا ضروری ہے تاکہ جہالت ختم ہو.

یاد رہے دنیاوی یا اخروی نقصان شریعت کے خلاف عمل کرنے پر ہوتاہے نہ کہ شریعت پر عمل کرنے سے. اور شریعت وہی ہے جو مصطفی علیہ السلام نے عطاکیاجیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ"(پارہ 28 سورۂ حشر آیت 7 )

 ترجمۂ کنز الایمان:جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

چونکہ چالیس دن تک کسی کےگھر نہ جانا یاکروبار نہ کرنا ایک قدم کا سوگ ہے اور اسلام میں تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں تویہ فعل قرآن واحادیث کے خلاف ہوا اور جب کوئی عمل اللہ ورسول کے  قول یا فعل کے خلاف ہوتو اس صورت میں مخلوق کی اطاعت بھی نہ کی جائےگی جیساکہ  امام ولی الدین الخطیب التبریزی نے ایک حدیث پاک کو نقل فرمایا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِق"( مشکوۃ المصابیح ، جلد دوم ، کتاب الامارۃ والقضاء ، حدیث نمبر۔3524 ص 332. مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

 ترجمہ:نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خالق کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ۔

 سوگ کے  متعلق حدیث پاک میں ہے"عن زينب بنت ابي سلمة , قالت:" لما جاء نعيابي سفيان من الشام دعت ام حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها وذراعيها , وقالت: إني كنت عن هذا لغنية لولا اني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الآخر ان تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج فإنها تحد عليه اربعة اشهر وعشرا"(صحیح البخاری ، کتاب الجنائز، باب احداد المرأۃ علی غیرھا ، حدیث نمبر 1280، ص 309، مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق)

ترجمہ:حضرت زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر جب شام سے آئی تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا (ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین)نے تیسرے دن ”صفرہ“ (خوشبو) منگوا کر اپنے دونوں رخساروں اور بازوؤں پر ملا اور فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ تو مجھے اس وقت اس خوشبو کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔

امام ابو بکر الحداد یمنی فرماتے ہیں "ووقتھا من حین یموت الی ثلاثۃ ایام وتکرہ بعد ذلک لانھا تجدد الحزن  الا ان یکون المعزی او المعزی غائبا فلا باس بھا "(الجوہرۃ النیرۃ شرح قدوری ، جلد دوم ، کتاب الجنائز ، ص 133 ، مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)

ترجمہ :تعزیت کا وقت موت سے تین دن تک ہے، اس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو تو حرج نہیں ۔

خلاصہ ۔ جو کام قرآن و حدیث کے خلاف ہو اس پر عمل کرنا ناجائز و گناہ ہوتا ہے ، لہذا مذکورہ امور پر مشتمل رسم پر عمل کرنا ناجائز و گناہ ہے ، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔واللہ اعلم بالصواب 

کتبہ 

 محمد ایاز حسین تسلیمی 

ساکن ۔ محلہ ٹاندہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی شریف 


 2025...8...4

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only